اپنی ہستی سے خفا ہو جاؤں میں
اب تو حسرت ہے فنا ہو جاؤں میں
آشنا ہو کر جہاں سے کیا ملا
کاش پھر ناآشنا ہو جاؤں میں
جرم میرے نام ایسا کیجیے
اپنی خاطر خود سزا ہو جاؤں میں
وقت کے سازوں کی خواہش ہے یہی
ایک بھولی سی صدا ہو جاؤں میں
بے اثر ٹھہری جو میری گفتگو
ہے یہ بہتر بے نوا ہو جاؤں میں
جب وفاؤں کا صلہ ہے بس جفا
کیوں نہ زاہد بے وفا ہو جاؤں میں