اپنی دستار مرے پاؤں میں دھرنے والے
سر مرا لیں گے محبت مجھے کرنے والے
یہ فراغت کی گھڑی روز دلاتی ہے یاد
زندگی سے جو مجھے کام ہیں پڑنے والے
موت کا نام ہی سن کر جو سہم جاتے تھے
اب قیامت چلی آئے .....نہیں ڈرنے والے
زندگی پھر سے نمک ان پہ چھڑک جاتی ہے
زخم ہوتے ہیں جو کچھ روز میں بھرنے والے
خوب صورت سے مناظر میں نمایاں جو رہے
پھول ہیں ہم بھی وہی شاخوں سے جھڑنے والے
پڑھنے والا کوئی اک آدھ نظر آئے مجھے
میں بھی حالات لکھوں خود پہ گزرنے والے
وقت کے ہاتھوں مرے کاندھوں پہ چڑھ بیٹھے ہیں
اور کچھ دیر میں جو پاؤں تھے پڑنے والے
زندگی موت کے ہاتھوں میں وہی دے گئے ہیں
یاسمیں لوگ مرے نام پہ مرنے والے
بک گئے وہ بھی سحر ردی کے بھاؤ میں آج
خط کئی خاص تھے جو بارہا پڑھنے والے