نہیں جانتی اپنی ذات سے کیسے نکلوں
کیو نکہ بہت مشکل ہے خود سے جدائی
روز روز ہے میرا خود سے جھگڑا
روز اپنی ہی عدالت میں سنوائی
عجب عجب سے رشتے ناتے
اپنا اپنا حق ہیں جتاتے
کبھی ہنساتے تو کبھی رولاتے
جب بھی اپنے پاس بیٹھاتے
یہاں سچ اور جھوٹ گلے ملے ہیں
پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی کھلے ہیں
یہ کیسے جذ بے ہیں ذات میں اپنی
ہم سر سے پاوں تک ہلے ہیں
نہ ہم کسی کے نہ کوئی ہمارا
زندگی کو میسر نہیں کوئی کنارہ
ہاتھ پکڑ لیتے ہیں مگر یقین نہیں آتا
سب کچھ ذات میں کیوں بدل نہیں جاتا
ہم ہوں کسی کے کاش کوئی ہو ہمارا
جیون کو میسر ہو اب کوئی سہارا
وفا کے موسم نہ محبت کی وادی
گزر چکی ہے زندگی مگر آدھی
نہ خاموشی بن پائی نہ صدا کسی کی
کبھی اپنے لیے تو کبھی سزا کسی کی
کبھی پہاڑ جیسی ہوں تو کبھی برف سی پگھلوں
نہیں جاتنی اپنی زات سے کیسے نکلوں