اپنی زندگی میں ، اپنی بہت کرلی
اے نفس تیری ، پیروی بہت کر لی
مرے گردشِ ایام میں زکرِ غروب نہیں
میں نے اُمیدِ ، زندگی بہت کر لی
روح جلتی ہے خواہشوں کے شُعلوں میں
عارضی گھر میں ، میں نے ، روشنی بہت کرلی
اب تُو مرے لمس کو تَرسے گا
دلربا تو نے بے ، رُخی بہت کرلی
عشقِ لازوال سے خود کو أشنا کر
چل اے دل کہ دل ، لگی بہت کرلی
حَلقہ دُشمنوں کا تو بڑھنا ہی تھا
تو نے حاصل جو ، برتری بہت کرلی
اخلاق اب قَلمِ الم اٹھا ، سینے پر داغ
کہ تو نے شاعری ، سرسری بہت کرلی