اپنی قسمت کا ستارہ جاوداں ایسے رہا
ہم نے شدت سے جسے چاہا وہ ملنے سے رہا
اے خدا میرے خدا اب داد بنتی ہے تجھے
ایسے پتھریلے منافق دل میں تو کیسے رہا
کیا یہ کم ہے میرے آقا تیرے نوکر کے لیے
جس جگہ بھی میں رہا تیرے حوالے سے رہا
لفظ کی حرمت بچانے کو سخن کرتے رہے
ورنہ تیرے آگے تو ہر شخص لہجے سے رہا
تیرے ہونے سے چمکتا اور دھمکتا تھا رضی
پھر کہاں یہ دل تمہارے بعد اچھے سے رہا