اپنی پلکوں پر میرے اشک پرونے والی
مُجھ سے بھی پہلے میرے درد پر رونے والی
میری ہر سانس ہے مقروضِ محبت تیری
بوڑھے ہاتھوں سے میرے کپڑوں کو دھونے والی
مُجھ کو احساسِ یتیمی سے بچائے رکھا
پُھول ہی پُھول میری راہوں میں بونے والی
مُجھ کو جرموں کی تلافی کا بھی موقع نہ دیا
بے خیالی میں میرے ہاتھ سے کھونے والی
صبر اور شُکر تیری عمر کا حاصل ٹھہرے
قلزمِ فقر میں تن من کو ڈبونے والی
روز روتی ہے میری تلخ مزاجی تُجھ کو
میھٹی باتوں سے میرے دل کو بھگونے والی
کون راتوں کو میرے واسطے اب جاگے گا
تختِ فردوس پہ آرام سے سونے والی
ماں کو کھویا ہے تب یہ راز کُھلا ہے ہم پہ
ماں تو ماں ہوتی ہے چاہے ہو کھلونے والی