اپنی ہرایک شام ہر ایک رات سونپ کر
وہ کھو گیا ہم کھو خیالات سونپ کر
ہم ہی سمجھ نہ پائے تھے بارہا
انہیں دکھ دے گیا ہمیں کوئ صدمات سونپ کر
لمحے تمام خوشیوں کے خود ہی سمیٹ کر
آنکھوں کو میری دے گیا برسات سونپ کر
جب بھی تراشہ ترا پیکر ہی تراشہ
لفظوں کو اپنے سارے جذبات سونپ کر
اب کی بھی ملاقات میں وہ پرشکون رہا
ہم کو نئے نئے پھر خدشات سونپ کر
ہم سے جدا ہوگیا وہ عمر بھر کے لئے
آنکھوں کو انتظار کے لحات سونپ کر
اپنی تو بنا لیں کوٹھیاں شاہوں نے لوٹ کر
لوگوں کو بے رحم و غمزدہ حالات سونپ کر
سنتے تھے رات ایک شاعر تھا مر گیا
لوگوں کو اپنے حسین نغمات سونپ کر