اپنی یادوں کو سمیٹ لو تم
بکھری ہیں کمرے میں کتابوں کی طرح
کاغذوں پر لکھی چند غزلیں
اور کچھ ادھوری نظموں کی طرح
تیرا غم ہے یاد کا اک صحرا
پھرتے ہیں جس میں مجنوں کی طرح
خواہشیں رخصت ہوئیں سب
خالی ہے دل اب بیاباں کی طرح
کالی گھٹا چھائی ہے آسماں پر
چہرے پہ زلف پریشاں کی طرح
زندگی جیسے اذیت ہو گئی ہو
شب و روز گزرتے ہیں امتحاں کی طرح