اپنے لئے تو سبھی جیا کرتے ہیں
اس جہاں میں کب لوگ سکھ کسی کو دیا کرتے ہیں
آتی ہے بہار ہر چمن میں
پھول مگر سب کب کھلا کرتے ہیں
ملتے ہیں ہزاروں لوگ زندگی میں
تجھ سے مگر اس جہاں کم ہی ملا کرتے ہیں
جلتے ہیں ہزاروں چراغ شب و روز
یوں مگر کھلی فضا میں کب جلا کرتے ہیں
حسرت ہے کے جاتی ہی نہیں دل سے
بن کھلے غنچےجو مرجھا جایا کرتے ہیں
پیتے ہیں سبھی غم حیات بھلانے کے لیے
یوں چلتی راہوں میں سرے عام کب پیا کرتے ہیں
رات بہت بیت چکی غزل ابتداء کرو اسد
دو چار شعروں سے دل کب بھلا کرتے ہیں