جان سے گزر جا
اور میں گزر گئی
اس نے کہا کہ مرجا
اور میں مر گئی
جان سے گزر کے
اس کے کہے پہ مر کے
حیات بخش زبدگی
اپنے نام کر گئی
حسرتوں کو روند کے
عارضی سکون کی
بےکلی کو چھوڑ کے
اضطراب سے گزر کے
مستقل سکون کی
راہ پہ نکل گئی
جان سے گزر گئی
آرزو کے سینکڑوں
جھوٹے بتوں کو توڑ کے
آرزوئے ناتمام
کو تمام کر گئی
بس ایک گھونٹ صبر کا
پی کے سمندر تر گئی
اس نے جو امتحاں لیا
اس امتحان سے بہت
ہنسی خوشی گزر گئی
حیات بخش زندگی
اپنے نام کر گئی
جان سے گزر گئی
جاں سے گزرنے کے بعد
حیات بخش زندگی
اپنے نام کر گئی