اپنے وطن سے دور بیٹھے اپنی یہ عید گزاریں گے
کیا کہیں کیا بتائیں کیسے اپنی یہ عید گزاریں گے
اپنی بستی کا ہر چہرہ گھوم رہا ہے اپنی آنکھوں میں
دَھندلی دَھندلی یادوں میں اپنی یہ عید گزاریں گے
جس طرف بھی اَٹھے نظر صورتیں ہوں گی آگاہیوں کی
بھیچ ہجوم میں بھی تنہا اپنی یہ عید گزاریں گے
ہم سَخن ہم زباں ہم نو کوئ نہ ہو گا یہاں
گَن گیے بہاروں کی طرح اپنی یہ عید گزاریں گے
خوشی خوشی لوٹیں گے لوگ اپنے گھروں کو
ہم پردیس کی اس سہرا میں اپنی یہ عید گزاریں گے
اب نہیں تو اَگلی بار چلے چلیں گے اپنوں میں ہم
اس آس کے سہارے ہی اپنی یہ عید گزاریں گے
مسعود آج کے دن مت چھڑو گلشن اس فسانے کو
ایسے ہی گزرنی یہ عید اپنی یہ عید گزاریں گے