اپنے چمن سے بے آبرو ہو کر نکلے
اپنی آغوش کے گُل ہی بے خبر نکلے
دیے سے نکلی نفرت کی اِک چنگاری
شعلے میرے آشیاں سے سالوں بھر نکلے
یہ وہی ہیں ذرا دیکھو تو سہی
ہائے!قاتل بھی میرے ہمسفر نکلے
تھمتا ہی نہیں یہ درد کا طوفاں
ہائے میرے سینے سے اب تو جگر نکلے
اب آخر ہم کو مٹا ہی گئے انجم
آہ!داغ سارے بے نظر نکلے