اپنے ہونے کی خبر دو مجھے
تنہا ہوں کوئی شجر دو مجھے
بنا رکھا ہے لا مکاں اپنے لئے
کوئی تو دیوار و در دو مجھے
ضمیر کے دیکھ سکوں پار کبھی
ایسی ہی اک نظر دو مجھے
جور و ستم ہر دم سہتا رہوں
حوصلہ کوئی ایسا جگر دو مجھے
تھک نہ جاؤں راستے میں کہیں
کوئی تو ہم سفر دو مجھے
کسے کہتے قصہ بے اماں طاہر
کچھ اذن ، امیر شہر دو مجھے