اچانک بدل گئے سارے لوگ
صرف میرے بدل جانے سے پہلے
جان کر ُدکھ ہوا بہت مجھے
ہر ُدکھ ُاٹھانے سے پہلے
وہ گیا رقیب کے گھر
ہر بار میرے گھر آنے سے پہلے
احساسات کی ترجمانی کرتا خط لکھا تھا
پڑھ لیا زمانے نے ُاس کے پڑھنے سے پہلے
میرا چہرہ تو کبھی گلاب تھا لیکن
مرجھا گیا خزاوں سے پہلے
اشک کیوں نکل آئے محفل میں
ُاس کے ُرخصیت ہو جانے سے پہلے
کس شوق سے جلایا تھا انتظار کا دیا
پر بجھ گیا ُاس کے دیدار سے پہلے
اب اور کیا لکھوں لکی بس ٹوٹ گیا
میرا دل ۔ ُاس سے دل لگانے سے پہلے