اڑتے بادل بزرگوں کی شفقت بنے دھوپ میں لڑکیاں مسکراتی رہیں
جب سے جانا کہ اب کوئی منزل نہیں منزلیں راہ میں آتی جاتی رہیں
رات پریاں فرشتے ہمارا بدن مانگ کر برف میں جل رہے تھے مگر
کچھ شبیہیں کتابوں کے بجھتے دیے کاغذی مقبروں میں جلاتی رہیں
سارے دن کی تپتی ساحلی ریت پر دو تڑپتی ہوئی مچھلیاں سو گئیں
اپنے ملنے کی وہ آخری شام تھی ، لہریں آتی رہیں، لہریں جاتی رہیں
ننگے پاؤں فرشتوں کا اک تحفہ ، آسماں سے زمیں پر اترنے لگا
سر برہنہ فلک زادیاں عرش سے آنسوؤں کے ستارے مسکراتی رہیں
اک دریچے میں دو آنسوؤں کا سفر رات کے راستوں کی طرح کھو گیا
نرم مٹی پہ گراتی ہوئی پتیاں سونے والوں کو چادر اوڑھاتی رہیں