اک اجنبی دیار میں گم صم سی بیٹھی رہتی ہوں
نہ جانے کس کے خیال میں گم بیٹھی رہتی ہوں
اک دائرے سے دوسرے دائرے کے درمیاں
محصور اک حصار میں چپ بیٹھی رہتی ہوں
میں رنگ برنگے اجنبی چہروں کے درمیان
ہر دم کسی کی یاد میں گم بیٹھی رہتی ہوں
میرا وجود در بدر بھٹکتا پھرتا رہتا ہے مگر
میں اپنی روح کو لیکر اک جگہ پہ بیٹھی رہتی ہوں
میری نظروں کے دائروں میں وسعتیں ٹھہر گئیں
مرکز دل کو نظروں میں سمائے بیٹھی رہتی ہوں
جب تک وہ میرے خوابوں میں آ نہیں جاتے
خمار شب کو آنکھوں سے لگائے بیٹھی رہتی ہوں
تخیلات کی گرفت سے آزاد ہونے تک
دامن دل میں آرزو دبائے بیٹھی رہتی ہوں
میں انتظار کی دہلیز پہ ہر شام ہی عظمٰی
دیے کی لو کو ہوا سے بچائے بیٹھی رہتی ہوں