اک اجنبی کی یاد میں آنکھ تیری کیوں بھیگی
دل کو صبر آیا پر آنکھ تیری کیوں بھیگی
جس نے تجھ کو لوٹا تھا درمیاں میں راہوں کے
اس کو معافی کیوں ملی آنکھ تیری کیوں بھیگی
بن کر جو سوالی راہ میں کھڑی ہے تو
بھیک ملتی دیکھ کر آنکھ تیری کیوں بھیگی
منزل پر پہنچا ہے وہ، راہ میں کھڑی ہے تو
منزل تو نے خود کھوئی، آنکھ تیری کیوں بھیگی
محبت تو عشق کا پہلا زینہ ہے پھر
شعلہ اک جو بھڑکا تو آنکھ تیری کیوں بھیگی