آ ج اس راستے سے پھر میرا گزر ہوا
آ ج ان را ہوں میں پھر میرا زکر ہوا
نا جا نے کہاں سے پھر وہی صدا آئی
ہوا تھی کے نا جا نے کون مسکرائی
پلٹ کر لوٹا جب میں اس جا نب تو
خاموشی کا احساس ہوا
میں نے پو چھا کون ہو تم تو
گنگنانے کی آواز آئی
پتھر کنکر سب چپ تھے پھر بھی
سدا دے رھے تھے انجا نے پھر بھی
چھوڑ چکا تھا میں اس اجاڑ رستے کو
پلٹ کر نہیں دیکھوں گا اس بیابان رستے کو
پر اب جاتا ھوں وہاں اپنے غم بہلانے
اس حسین سما کو اس انجانی سدا کو بلانے
اب شاید وہ آواز مجھے سنائی نھیں دیتی
لاکھ دیتا ھوں سدایں پر دیکھائ نھیں دیتی
لگتا ھے وہ رو ٹھ کر جا چکی ہے
سارے رشتے سارے ناتے توڑ کر جاچکی ہے
میں آج بھی وہیں بیٹھا اس کا انتظار کرتا ھوں
اس اندیکھے احساس سے میں بہت پیار کرتا ھوں