Add Poetry

اک اور دسمبر گزر گیا

Poet: عائشہ ارشد کھوکھر By: عائشہ ارشد کھوکھر, Satrah Sialkot

اب چپ چپ سے رہتے ہیں ، جو پنچھی باتیں کرتے تھے
اس دھرتی کی کلیوں پہ ، کبھی شبنم کے قطرے گرتے تھے

وہ کنواں جو لوگوں کو، کبھی میٹھا پانی دیتا تھا
اب پیاساپیاسا رہتا ہے اور پتھروں سے وہ بھر گیا

لوگ آگے آگے چلتے رہے ، ہم پیچھے کھڑے منتظر رہے
یونہی کھڑے کھڑے ویرانوں میں اک اور دسمبر گزر گیا

کہیں قطرہ قطرہ پانی کو کچھ لوگ پل پل ترسے بھی
کہیں آتیں رہیں بہاریں بھی، کہیں بادل آکر برسے بھی
کچھ پتے خوب سیر ہوۓ، کچھ پھول سوکھے رہ گۓ

میں نے سال بھر کوشش کی ، کچھ لوگ روٹھے رہ گۓ
کچھ چہرے بے نقاب ہوۓ میرا ضبط کہ میں چپ رہا

یوں الجھنوں اور سوالوں میں اک اور دسمبر گزر گیا
بس وقت بہت کم ملا اور باتیں ادھوری رہ گئیں

ابھی دن چڑھنا باقی تھا اور راتیں ادھوری رہ گئیں
کچھ قیمتی لوگ دفن ہوئے یوں کام ادھورے رہ گئے

کچھ چیخیں کہیں دب گئیں اور نام ادھورے رہ گئے
ہر شخص راز سے واقف تھا اور سب نے تماشا دیکھا تھا

بس قصوں اور افسانوں میں اک اور دسمبر گزر گیا
نا سوکھے پتے سبز ہوئے نا پھول کھلے کتابوں میں

نا تلخ لہجے سرد ہوئے نا چاہت رہی اب باتوں میں
نا ہوائیں چلیں وہ سرد سی، نا برف جمی شاخوں پر

نا کوئی شعر لکھا نا غزل کہی، نا پتا چلا دسمبر کا
انہی سوچوں اور خیالوں میں اک اور دسمبر گزر گیا

Rate it:
Views: 282
30 Dec, 2022
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets