اک اک پتھر جوڑ کے میں نے جو دیوار بنائی تھی
جھانکوں اس کے پچیھے تو رسوائی تھی
یوں لگتا ہے سوتے جاگتے اوروں کا محتاج ہوں
آنکھیں میری اپنی ہیں پر ان میں نیند پرائی ہے
دیکھ رہے ہیں سب حیرت سے نیلے نیلے پانی کو
پوچھے کون سمندر سے تجھ میں کتنی گہرائی ہے
آج ہوا معلوم مجھے اس شہر کے چند سایوں سے
اپنی راہ بدلتے رہنا سب سے بڑی دانائی ہے
توڑ گئے پیمان وفا اس دور میں کیسے کیسے لوگ
یہ مت سوچ قتیل کہ بس اک یار تیرا ہرجائی ہے