گر آزاد پنچھی جو ہم ہوا کرتے
تو اپنی منزل چنا کرتے
نہ کرتے خیال اس دنیا کا
ہم تم سے ایسی وفا کرتے
تم ہم کو جہاں بھی لے جاتے
نہ تم سے کوئی گلہ کرتے
بس تھام کے تیرے ہاتھوں کو
ہم تیرے نقش قدم پہ چلا کرتے
نہ ڈر ہو کبھی جدائی کا
ہم ایسا کوئی سودا کرتے
اک بارجو کہتے میرے ہو تم
پھر دیکھتے ہم کیسے خود کو فنا کرتے
بر سوں سے راہ تک رہی ہے دیا۔۔۔
اے کاش کہ تم نہ ابتداء کرتے