اک بار جو ملتا ہے وہ دوبارہ نہیں ملتا
اتنی بڑی دنیا میں کوئی ہمارا نہیں ملتا
کس کو بنائیں ہمسفر زندگی کے سفر میں
ہم کو تو کہیں سے اشارہ نہیں ملتا
بہت لوگ ملے ہیں ہم کو سفر میں
مگر کوئی بھی جان سے پیارا نہیں ملتا
ایسی پھنسی ہےغم کہ بھنور میں کشتی
پریشاں ہیں اس قدر کے کنارہ نہیں ملتا
مدت کہ بعد آئے ہیں تیری گلی میں اصغر
اب کس سے پوچھیں کہ گھر تمہارا نہیں ملتا