بیکار اناؤں کا زہر میری آنکھوں میں ہے
دردوں کا اک شہر میری آنکھوں میں ہے
اک عمر ہوئی رات کو سویا بھی نہیں
تم سے بچھڑنے کا منظر میری آنکھوں میں ہے
خزاں رُت کے عذاب تو مجھے یاد نہیں
بس اک بے برگ سا شجر میری آنکھوں میں ہے
تم سے مل کر سرشام جب سے پلٹا ہوں
تیری دہلیز کا پتھر میری آنکھوں میں ہے
نہ جانے مقدر کب پہنچائے مجھہ کو
منزل تک کا سفر میری آنکھوں میں ہے
اپنے دیس کو پلٹنے کو جی نہیں چاہتا
میرا اجڑا ہوا گھر میری آنکھوں میں ہے
یہ اور بات کہ میں رویا نہیں عثمان ورنہ
اشکوں کا اک سمندر میری آنکھوں میں ہے