ایسے روٹھے اپنے آپ سے اک تیرے جانے کے بعد
کم ملتے ہیں لوگوں سے اک تیرے جانے کے بعد
لکھ لیتے تھے کچھ حرف بیاض اُلفت کی روشنائی سے
نہ رہی تشنگی باقی اب تو اک تیرے جانے کے بعد
گزر جاتا ہے بادل بھی اُداس اب تو میرے آنگن سے
خوشی سے برسا نہیں کبھی اک تیرے جانے کے بعد
لبوں پہ سجا لیتے ہیں خوشیوں کی دھول
آیا نہ کبھی قرار اک تیرے جانے کے بعد
تُو پھر مہکے اک دم تازہ ہوا کا جھونکا بن کر
مانگتی پھر رہی ہوں دعا اک تیرے جانے کے بعد
چھا جاتی ہیں گھٹائیں شام ڈھلے ہی گھر میرے
نہ رہی روشنی باقی اب اک تیرے جانے کے بعد