اک جرم محبت نے کیا سزا دی
محل سے اٹھا کہ جھونپڑی میں پناہ دی
پتا پتا کر دیا وجود مرا شاخ سےکر زندگی جدا دی
کبھی ہاتھوں میں حنا کے رنگ کھلتے تھے
خوشیوں کی لکیریں مٹا دی
وقت جیسا بھی ہے گذر رہا ہے
عزت کی چادر سر سے ہٹا دی
چاند کو دیکھر لگتا ہے مجھے اپنا گماں
ستاروں کی محفل سے ہستی ھٹا دی
میں نے ٹوٹ کہ وفا کی تھی
وفا کے بدلے ہاتھ جفا دی
مکمل عاشقی کرنا چاہتی تھی
محبت دو چار لکیروں میں سما دی
ہاں! عشق کیا تھا عشق کیا تھا عسق کیا تھا
عاشقی نے زندگی گھما دی