اک حسیں شام کے جلووں کو صدا دیتا ہوں
میں ترے وصل کے لمحوں کو صدا دیتا ہوں
میرے ایاغ محبت کو ذرا سا بھر دے
تیری آنکھوں کی شرابوں کو صدا دیتا ہوں
ان میں غم اور اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
کس لیے تیرے خیالوں کو صدا دیتاہوں
تیرے دامان وفا میں مجھے نفرت ہی ملی
پھر میں کیوں تیری وفاؤں کو صدا دیتا ہوں
میں نے گائے تھے ترے پیار کی خاطر جو کبھی
ان فراموش سے نغموں کو صدا دیتا ہوں
رنگ باقی ہیں نہ پہلی سی وہ خوشبو ان میں
عہد گم گشتہ کے پھولوں کو صدا دیتا ہوں
ہر طرف ٹھہری ہوئی سرد خموشی کی کہر
ایسے میں تیری صداؤن کو صدا دیتا ہوں