اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انھیں نا مہرباں رہنے دیا
آرزوِ قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کوئی جینے میں جینا، بغیر انکے ادیب
شمع گُل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا