اک شام کو پیڑ کے سائے تلے
میں گم سم گم سم بیٹھا تھا
اور اپنے آپ میں ہنستا تھا
تبھی کندھوں پر اک ہاتھ پڑا
وہ بولے بیٹا کیا بات ہے
کیوں اتنے کھوئے بیٹھے ہو
کیا دل کو لگاۓ بیٹھے ہو؟؟
میں بولا میرے پاس ہے وہ
وہ جس کو ترستی ہے دنیا
محبوب میرا مجھے چاہتا ہے
کیا پیار کا رشتہ ناطہ ہے
وہ بولے بیٹا مت کر یہ
آغازِ محبت اچھا ہے
انجامِ محبت تلخ ہو گا
میں ہنسا بابا پگلا ہے
وہ شام گزرتی گزر گئی
وہ وقت گزرتا گزر گیا
پھر وقت نے پلٹا یوں کھایا
وہ دور کٹا سا رہنے لگا
میرا نام بھی شائد بھول گیا
پھر مدت بعد،، میرا گزر ہوا
اسی پیڑ تلے
اسی سوکھے سوکھے پیڑ تلے
وہاں بیٹھا ایک پریمی تھا
وہ بھی اپنے آپ میں ہنستا تھا
میں دھیرے دھیرے پاس گیا
"شانوں پر رکھ کر ہاتھ کہا"
اے ہمدم میری بات سنو
آغازِمحبت اچھا ہے
انجامِ محبت تلخ ہو گا
بہتر ہے سمجھ لو بات میری
یا حال ذکی جیسا ہو گا
یا حال ذکی جیسا ہو گا