اک شخص جو اپنا بن کر ملتا تھا اکثر
اب اجنبی بن کر ملتا ہے اکثر
جو بہاریں خوشیوں کے پھول کھلایا کرتی تھیں
وہ بہاریں اب زخم دیا کرتی ہیں اکثر
جو گزرا سانحہ اب ماضی ٹہرا
دل برباد پر ایسے طوفان گزرا کرتے ہیں اکثر
چپ چاپ گزر جاتی ہیں بہاریں
میں نے سنی ہیں درختوں کی سرگوشیاں اکثر
میرے دل کی اجاڑ بستی میں بہاریں اتریں
میرے پیارے یہ دعا مانگتے ہیں اکثر
عشق کا دریا بچوں کو نگل لیتا ہے
میں نے ڈوبنے والوں سے سنا ہے اکثر
محبت کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی
میں نے بھٹکنے والوں سے سنا ہے اکثر