اک طرف محبت کو آزما رہی ہوں
اک طرف اپنے رب کو منا رہی ہوں
تم آ جاؤ تو بہت اچھا ہو گا
میں کب سے خود کو مٹا رہی ہوں
شام کی ُاداسیوں میں اداس سا چہرہ لیے
میں کب سے بکھریں زلفیں سلجھا رہی ہوں
سنو پھر تم اچانک سے بہت یاد آنے لگے
جب تنہا ہواؤں سے چراغ بچا رہی ہوں
نا دن کی خبر ، نا رات کا پتا چلتا ہے
یادیں ہی یادیں ہے جن سے دل لگا رہی ہوں
ہر وہ شخص نجانے کیوں دشمن نکل آیا
جنہیں مددتوں سے دوست بنا رہی ہوں
میرے ہر دکھ ، درد کی دوا تمہارے پاس ہے
نجانے کیوں اپنا دکھ تم سے ہی چھپا رہی ہوں