قفس کو چھوڑ کے وشمہ چمن میں آئی ہوں
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں
پرانی طرز کو اپناؤں یا نئی رائیں
عجیب کشمکش فکر و فن میں آئی ہوں
یہ سادگی ہے کہ دیوانگی خدا جانے
جو پیار ڈھو نڈنے نفرت کے بن میں آئی ہوں
رہائی پانا بھی چاہوں تو پا نہیں سکتی
ہزار رشتے لئے پرہن میں آئی ہوں
کچھ اور کرنا تھا مجھ کو میں کر رہی ہوں کچھ اور
یہ کس کی روح لئے اپنے تن میں آئی ہوں
وشمہ پھیکا تھا ہر رنگ شاعری کے بغیر
یہی سبب ہے جو بزم سخن میں آئی ہوں