بہت دنوں کے بعد اُسے
اک محفل میں دیکھا تھا
اک لمحے کو ہجر و وصال کے سارے موسم
آنکھوں میں لہرا سے گئے
دل میں چراغ سے جل اُٹھے
اس سے گلے ملنے کے تصّور سے ہی
جیسے سارا وجود
پُھول کی صُورت کِھل اُٹھا
اُن ہاتھوں کے لمس کو سوچ کے
سارا جسم سُلگ اٹھا
اُن ہونٹوں کی گرم گلابی نرمی کا خوش رنگ خیال
ہونٹوں پہ مسکا اُٹھا
حلقۂ یاراں سے آخر
میری طر ف وہ بھی آیا بھی
میری جانب دیکھا بھی
پر جو کہا تو اتنا کہا
آپ سے مِل کر خوشی ہوئی
میرے صحنِ دل میں اچانک ہونے والی
پت جھڑ سے یکسر لا علم