اک مدت سے
آنکھوں میں خواب لیے
اک لڑکی چپ چاپ
بیٹھی ہیں تیری آس لیے
کتنے موسم گزر گئے
کتنے پھول بکھر گئے
وہ اب بھی کھڑی ہے
ُاسی راہ میں ہاتھوں میں
مرجھایا اک گلاب لیے
دہیرے دہیرے شام بھی ڈھلنے لگی
وہ کاجل بھری آنکھیں
پھر سے برسننے لگی
وہ ویران جنگل بھی بول ُاٹھا
چپ ہو جا اے پاگل لڑکی
کہ میں تھک گیا ہوں
تیرے آنسووں کا دریا لیے