اک نگاہءِ مست کے انتظار میں ہوں
عرصے سے راہگزرِ خارزار میں ہوں
میں چل پڑا تھا یونہی پیدل سفر پہ لیکن
رستے کی صعوبتوں سے بہت انتشار میں ہوں
ملتے ہیں لوگ ایسے جیسے کے پارسا ہوں
میں تو کوئی جیسے گناہوں کے بار میں ہوں
ہے ظرف جتنا جس کا اتنا وہ کرسکا ہے
میں بھی خودپرستی کے اس کاروبار میں ہوں
سب لوگ اپنے اپنے مطلب کو دیکھتے ہٰیں
محسوس ہوا کہ جیسے سانپوں کے غار میں ہوں
منزل پہ بھی پہنچ کر محسوس ہوا ہے احسن
اب بھی تو میں کسی کے انتطار میں ہوں