ہر زخم نیا اک نیا عنوان دے گیا
ہر روز مجھےاک نیا دیوان دے گیا
زیست کا کشکول خالی نہیں رہنے دیا
رنج و الم اشکوں کا سامان دے گیا
جس نے مجھے اپنوں سے انجان کر دیا
یہ وقت مجھے ایسا ایک انجان دے گیا
آیا تو پھر نہ جا سکا خالی مکان سے
یہ دل میری نظر کو وہ مہمان دے گیا
جس کا کوئی نشانہ خطا نہیں جاتا
ایسی کڑی کمان یہ مہمان دے گیا
رنگین خیالات سے آراستہ دل کو
جاتے ہوئے یہ خالی مکان دے گیا
عظمٰی جو اس مکان میں برسوں مکیں رہا
جاتے ہوئے دل دے گیا پر جان لے گیا