اک پل
آکاش اور دھرتی کو
اک دوجے میں بن کر
رنگ دھنک اچھالے
دوجا پل
جو بھیک تھا پہلے کل کی
کاسے سے اترا
اتراتا اٹھلاتا
ماتھے کی ریکھا ٹھہرا
کرپا اور دان کا پل
پھن چکر مارا
سلوٹ سے پاک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
اترن کا پل
الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا
حاتم سے چھل
ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چاہے
ہر دیوانہ
عہد کا قیدی
مر مٹنے کی باتیں
ٹالتے رہنا
کل تا کل
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے بیٹھا بےکل