فکر کے سماء پہ آتی ہےجب شام
اپنی سوچ کے تارے گنتا رہتا ہوں
کشمکشِ حیات میں پھنسا سوجاتا ہوں
تمام دن آہ بکا ہ سنتا رہتا ہوں
نہ پا لے کہیں کاتب تقدیر مجھے
نگاہِ غیب سے میں چھپتا رہتا ہوں
بھروسہ ہے مجھے زورِ بازو پہ بہت
زمیں پہ گرے تنکے چنتا رہتا ہوں
غموں کا لگا کے ڈھیر اپنے سامنے
اٹھا کر دکھ ایک ایک تکتا رہتا ہوں
نہیں کی میں نے بے وفائی کسی سے
اس ضمیر ِ بے نیا ز سے الجھتا رہتا ہوں
ستر پوشی ہے مری یہ ردائے ایمان
اکھڑے ہوئے دھاگے بنتا رہتا ہوں