اب اصرار کرتا ہوں
کہ زندگی ادھوری ہے
کہ دکھ ہے نا رسائیوں کا
کہ رشتے بے ثبات ہیں
کہ بگڑے اب حالات ہیں
کہ خالی میرے ہاتھ ہیں
کہ اپنی زندگی میں اب
کئی اب مشکلات ہیں
کہ میرا ساتھ دینے میں
کئی برسوں کی دُوری ہے
کہ ہر داستاں اب تک
رہی کیونکر ادھوری ہے
کہ اب جگ ہنسائیوں کا
کہ ساری بے اعتنائیوں کا
میں یوسف نہیں پھر بھی
ذکر کرتا ہوں بھائیوں کا
کہ میں اقرار کرتا ہوں
مجھے اپنوں نے لوٹا ہے
یہی اظہار کرتا ہوں
اپنے دل کے جذبوں پہ
اگر اعتبار نہ کرتا
کبھی اِک ہاں جو کہہ دیتا
کوئی اصرار نہ کرتا
تو ہوتی مختلف زندگی
اگر انکار نہ کرتا