اگر بزمِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنّت نہ ہوتی
سِتاروں کے دِل کش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نُورِ مسرّت نہ ہوتا
نگاہوں میں شانِ مروّت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفانِ ہستی نہ مِلتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
مُسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قُربت نہ ہوتی
ہر اِک پُھول کا رنگ پھیکا سا ہوتا
نسیمِ بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سُنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی