اک گزارش ہے اگر تم مان جا ؤ تو
تمہیں ملنے میں آؤں گی اگر تم مان جاؤ تو
خزاں کے موسموں سے مجھے وحشت نہیں ہوتی
اُمید صبحِ نو بہار اگر تم مان جاؤ تو
بتاؤ اب بھی کیا شب و روز مریضوں میں گزرتے ہیں
کچھ لمحے تمہارے ساتھ جاگوں اگر تم مان جاؤ تو
ان بھیگی راتوں کے خاموش سناٹوں میں کریں سرگوشیاں
دسمبر یونہی نہ گزر جائے اگر تم مان جاؤ تو
تمہاری خواہشیں تو پروان چڑھتی ہیں اُسی کے کومل جذبوں سے
حسرتوں کو بھی اپنی کسی کا نام دوں اگر تم مان جاؤ تو
زلف گھٹا ساون رخَ مہتاب تو نہیں پھر بھی حسن
ہوں تو اب بھی خوبرو اگر تم مان جاؤ تو
مسیحا ہو دوا کر دو ٹوٹے قلب و جاں کے واسطے
میں پھر سے پڑھوں نماز اگر تم مان جاؤ تو