اگرچہ آج وہ اگلا سا التفات نہیں
مَیں شِکوہ سنج نہیں، تو خدا کی ذات نہیں
وہ نغمہ گر نہیں صرف ایک مرثیہ خواں ہے
کہ جس کے چنگ میں آہنگِ کائنات نہیں
میری شکست میں انسانیت ہے نالہ کناں
یہ سانحات فقط میرے سانحات نہیں
چراغِ راہ ہے میرا غرورِ خود نگری
فقط خد۱ کی پرستش رہِ نجات نہیں
مَیں گُل کو دیکھ کے تخلیقِ گُل کی سوچتا ہوُں
گلوں کو دیکھتے رہتا تو کوئی بات نہیں
یہ راستے تو میرے ہاتھ کی لکیریں ہیں
جو توُ رفیقِ سفر ہو تو رات، رات نہیں