اس آس پہ بیٹھے ہیں راہوں میں
شاید کوئی لے لے اپنی بانہوں میں
وہی ہمیں تنہا چھوڑ کے چل دیے
ہم آئے تھے جن کی پناہوں میں
وہ اس لیے میرا ساتھ نا دےسکا
مجبوری کی زنجیر تھی اس کے پاؤں میں
مال وزر سے بھی ہمیں میسر نا ہوا
جو سکون تھا وطن کی چھاؤں میں
ایسا اثر دنیا کی کسی دوا میں نہیں
جو ہوتا ہے اک ماں کی دعاؤں میں
اب تو دن رات یہی فکر رہتی ہے
کہ کب لوٹ کر جائیں گے گاؤں میں
یہاں ہر چہرہ اجنبی سا لگتا ہے
کوئی نہیں ہے میرے آشناؤں میں
جو موت کے منہ سے لوٹ آتے ہو اصغر
کوئی تو یاد رکھتا ہے دعاؤں میں