ایسا تو کوئی شخص بھی ہم کو ملا نہیں
غم کا مزا جہان میں جس نے چکھا نہیں
اندھیر اس قدر بھی تو یارو ! مچا نہیں
دل شہر آرزو کا ہے، ماتم کدا نہیں
امید ہے جوان تو ہیں حوصلے بلند
منزل پہ جو نہ پہنچے، یہ وہ قافلہ نہیں
شہر ستمگراں میں ہیں شبیر کے مرید
ہم کو یزیدیت سے کوئی واسطہ نہیں
آوارگان دشت محبت ہمیں تو ہیں
وہ شخص ہے ادھورا، جو ہم سے ملا نہیں
رہنے دو کیوں کریدتے ہو بار بار اسے
پریوں کی داستان میرا ماجرا نہیں
جانا ہے زندگی کے مصائب کو دیکھ کر
دنیا میں رنج و غم کی کوئی انتہا نہیں
میرا سخن وفا و محبت کا ہے پیام
بغض و حسد ، نفاق مرا راستا نہیں
انجام کا رہا اسے رومی ! ہمیشہ خوف
جس نے کیا مآل سپرد خدا نہیں