ایسا نغمہ ہے جس میں صدا تک نہیں ایسی آندھی ہے جس میں ہوا تک نہیں
زندگی کی طرح جاوداں بیکراں اتنے مجبور جتنی فضا تک نہیں
چلتے مضمونوں کے نوٹس اور ترجمے اُجلے شو کیس میں سج گئے ٹھیک ہے
کیوں دکاندار رکھے کتابِ ادب اسے اب کوئی پوچھتا نہیں
اک سمندر کے پیاسے کنارے تھے ہم اپنا پیغام لاتی تھی موج رواں
آج دو ریل کی پیڑیوں کی طرح ساتھ چلنا ہے اور بولنا تک نہیں
رات کا کالا جادو ہے زُلف میں اپنے چہرے پہ سو رج کا چہرا رکھو
تیز نظموں سے لوگوں پہ حملہ کرو، یوں کسی کو کوئی پوچھتا تک نہیں
زعفرانی رنگ کے گیسوؤں کی گھٹا آسمانی رنگ کے کوٹ پہ چھا گئی
نرم یادوں کے اجلے فرشتوں کے پر دودھیا خاموشی اور ہوا تک نہیں