ایسا کیوں ہوتا ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے
کہ اداسی ختم نہیں ہوتی
نہ پھولوں کی مہک آتی ہے
نہ دن کا اجالا دیکھ پائیں
نہ شامیں حسین لگتی ہیں
نہ راتوں سے کچھ سیکھ پائیں
ہم مسلسل اداس رہتے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے
کہ اجنبی چیرے زندگی کا حصہ بنتے ہیں
پھر اک گزرا قصہ بنتے ہیں
پھر کچھ بھی نہیں رہتے
بہہ جاتے ہیں پانی سنگ
انکھیں پھر کہانی سناتی ہیں
کہ کوئی گزرا ہے اس راستے سے
چھین کر چہرے کی ہنسی
اب کبھی نہیں لوٹے گا
ایسا کیوں ہوتا ہے
دل سے اکثر پوچھتی ہوں
جب اور جتنا سوچتی ہوں
کیوں کوئی مالک بن جاتا ہے
کٹپتلی سا ہنساتا رولاتا ہے
کوئی جواب نہیں ملتا
کوئی پتہ نہیں ہلتا
مگر خدا کی مرضی سے
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیوں ہوتا ہے