ایک دن ختم ہو جائےگی زندگانی میری
یہ اشعار رہ جائیں گے نشانی میری
اپنے نام کی طرح ادنیٰ سا شاعر ہوں
دنیا میں کون یاد رکھے گا کہانی میری
ان کی آنکھوں پہ حسد کا چشمہ تھا
اسی لیے ان لوگوں نے قدر نا جانی میری
نئے لوگوں سے میں اس لیے گھل مل نا سکا
ان کی نظروں میں سوچیں تھیں پرانی میری
زیست کے سفر میں کچھ ایسے عظیم انسان ملے
جن الله کے بندوں نےاصلی حقیقت پہچانی میری
برےوقت میں بھلے دنوں کو یاد کر لیتا ہوں
زیست کی ہر گھڑی گزری ہے سہانی میری
اپنے دشمنوں سے بڑے احترام سے ملتا ہوں
کوئی سمجھ نا لے اسے نادانی میری
میں ناچیز کس بات کا بھلا مان کروں
یہ مختصر سی زندگی بھی ہے فانی میری