ایک دِل سے دُوسرے کی باتیں کرتی ہے غزل
اِک جہاں سے دُوسرے میں جب اُترتی ہے غزل
کَون چاہے گا یہ باتیں عام لہجے میں کرے
جب کہ سَو سَو اِک بیَاں میں رنگ بھرتی ہے غزل
جب بھی قاری پڑھنا چاہے دِل سے دِل کی بات کو
خود کو لے کے لمحہ لمحہ پھر سَنورتی ہے غزل
مرزا کی باندی رہی تو میر سے ہے کب الگ
ہے ولی سے انصرام تو اُبھرتی ہے غزل
کِیُوں کہُوں ہیں لفظ میرے ، اوروں کی نہ بات ہو
اُن کو جب میں ساتھ رکُھوں تو نکھرتی ہے غزل