ایک دیوانہ دیکھا تھا
میلا سا گندا سا
گرد میں اٹے بال اسکے
ننگ پاؤں میں آبلے تھے پڑے
خاموش نگاہیں ڈھونڈتی تھیں کس کا پتہ
جانے کھوجتی تھیں کس کا نشاں
ہاں ایک ٹوٹی گڑیا ہاتھ میں پکڑا رہتا تھا
نا جانے اس سے کیا کہتا رہتا تھا
کبھی ہنستا تھا
کبھی روتا تھا
سینے سے بھینچے گڑیا کو پڑا رہتا تھا
اسے کبھی ہاتھ پھیلائے نہ دیکھا تھا
آنسو پیتا تھا
غموں سے پیٹ بھرتا تھا
ہاں وہ رات بھی یاد ہے مجھ کو
جب طوفان نے گھیرا تھا شہر کو
آندھی بھی خوب چلی تھی چار سو
پھیل گیا تھا اندھیرا ہر سو
صبح ایک عجیب سی اداسی لئے آئی تھی
جانے کیوں خاموشی چاروں طرف چھائی تھی
جانے یہ کیسی سوگواری فضا نے رچائی تھی
جب ایک لاشے کو گلی میں پڑے دیکھا تھا
اس دیوانے کو ساکت پڑے دیکھا تھا
گڑیا کو بے جان سینے سے بھینچے دیکھا تھا
وہ لاوارث چپ چاپ یونہی مر گیا
بے نشاں تھا گم گشتہ کہانی بن کر رہ گیا
سوالیا نشاں تھا سوال بن کر رہ گیا
گڑیا وہیں رہ گئی
وہ جہاں سے اٹھ گیا
میری آنکھ سے لڑھک کر ایک آنسو زمیں میں جذب ہوگیا
ہاں وہ دیوانا پاگل سا شخص اپنی گڑیا وہیں چھوڑ گیا
ہم سب کے لئے ایک سوال چھوڑ گیا
بوجھ دلوں پے بڑھا گیا
وہ سوئے زمیروں کو جھنجوڑ گیا
ایک دیوانہ دیکھا تھا
عجیب پاگل سا شخص دیکھا تھا