ایک سناٹاہے اور عالم تنہائی ہے ( گیت )
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Pakistanبے قراری ہے بہت رات کی پہنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے رہی ہے ویراں
اب تو کچھ اور سسکنے لگے میرے ارماں
جانے کس جرم کی بے نام سزا پائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
میں اکیلا ہوں یہاں کوئی بھی ہمراز نہیں
خامشی اتنی ہے پتوں کی بھی آواز نہیں
ایسے میں دور سے اک تیری صدا آئی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
آج بھی میرے تصور میں چلی آتی ہو
اپنی زلفوں سے مری سانسوں کو مہکاتی ہو
اب تو آ جاؤ مری جان پہ بن آئی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
منتظر ہوں ترے قدموں کی میں آہٹ سن لوں
ان کی خاطر میں مہکتے ہوئے غنچے چن لوں
سارے گلشن میں ترے حسن کی رعنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
تو جو آ جائے تو مجھ پہ یہ اداسی نہ رہے
کھل اٹھے دل کا چمن روح بھی پیاسی نہ رہے
تیرے بن میری امنگوں پہ خزاں چھائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
دھڑکنیں تجھ کو بلاتی ہیں مری جاں آ جا
اب تو حسرت میں بدلنے لگے ارماں آ جا
میری محبوب ہے یا تو کوئی ہرجائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
رات کہتی ہے مجھے لوٹ کے اب گھر جاؤ
اس ویرانے میں ٹھٹھر کے نہ کہیں مر جاؤ
میری وحشت مجھے کس راہ پہ لے ائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
بے قراری ہے بہت رات کی پہنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






