ایک صدا سی کانوں میں گونجتی رہتی ہے
جیسے ہر کسی سے پتہ میرا پوچھتی رہتی ہے
آنکھوں میں اسکی کوئی منظرجم گیا ہو جیسے
میرے ساتھ ہوکر بھی مجھے ڈھونڈتی رہتی ہے
وہ جیسے مجھے پہچانتی ہے مجھ سے زیادہ
کہتی توکچھ بھی نہیں بس گھورتی رہتی ہے
میں اس پر مسلط کیا گیا ہوں جیسے
کسی زحمت کیطرح مجھے جھیلتی رہتی ہے
ایک خود ساختہ خدا سا دکھتا ہوں اسکو
میرے سامنے بیٹھ کر پوجتی رہتی ہے
میری جستجو میری تگودو نامعلوم ہے خالد
سمندر میں جیسے ناؤکوئی ڈولتی رہتی ہے